Sermon Details
سیرۃ خالد بن الولید رضی اللہ عنہ
ABOUT SERMON:
- Khalid ibn al-Walid (RA), known as “The Sword of Allah”, accepted Islam shortly before the conquest of Makkah.
- He fought heroically at the Battle of Mu’tah, saving the Muslim army after the martyrdom of the commanders.
- The Prophet ﷺ praised him, saying: “What an excellent servant of Allah is Khalid, a sword among the swords of Allah unleashed upon the disbelievers.”
- He led decisive victories against the Romans, Persians, and false claimants of prophethood, including Yamamah and Yarmouk.
- His body bore the marks of countless battles, yet he passed away on his bed, saying: “I die as a camel dies, though I fought in every battle.”
- Despite being a great commander, he was humble, sincere, and devoted to Allah, never fighting for worldly gain but only for the supremacy of Allah’s word.
- His life teaches us courage, sincerity, steadfastness, sacrifice, and loyalty to Islam.
سیرۃ خالد بن الولید رضی اللہ عنہ
ذِكْرِ سِيرَةِ ٱلصَّحَابِيِّ ٱلْجَلِيلِ خَالِدِ بْنِ ٱلْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
ٱلْخُطْبَةُ ٱلْأُولَىٰ
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِي نَصَرَ عِبَادَهُ ٱلْمُؤْمِنِينَ، وَأَعَزَّ جُنْدَهُ ٱلْمُجَاهِدِينَ، وَجَعَلَ ٱلْإِسْلَامَ نُورًا وَفَتْحًا مُبِينًا، وَٱخْتَارَ لِدِينِهِ رِجَالًا صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا ٱللَّهَ عَلَيْهِ. نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَتُوبُ إِلَيْهِ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا.
وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ﷺ، بَلَّغَ ٱلرِّسَالَةَ، وَأَدَّى ٱلْأَمَانَةَ، وَجَاهَدَ فِي ٱللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ، وَتَرَكَ أُمَّتَهُ عَلَى ٱلْمَحَجَّةِ ٱلْبَيْضَاءِ.
أَمَّا بَعْدُ…
فَإِنِّي أُوصِيكُمْ أَيُّهَا ٱلْمُؤْمِنُونَ وَنَفْسِيَ ٱلْمُقَصِّرَةَ بِتَقْوَى ٱللَّهِ، فَهِيَ سَبِيلُ ٱلنَّجَاةِ وَزَادُ ٱلْقِيَامَةِ، قَالَ تَعَالَىٰ:
﴿يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا ٱللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا﴾ [الأحزاب: 70]
إِنَّنَا نَقِفُ ٱلْيَوْمَ مَعَ سِيرَةِ أَحَدِ أَسُودِ ٱلْإِسْلَامِ، وَفَارِسٍ مِنْ فُرْسَانِ ٱلتَّوْحِيدِ، ٱلصَّحَابِيِّ ٱلْجَلِيلِ: خَالِدِ بْنِ ٱلْوَلِيدِ بْنِ ٱلْمُغِيرَةِ رَضِيَ ٱللَّهُ عَنْهُ، ٱلْمُقَلَّبِ بِـ”سَيْفِ ٱللَّهِ ٱلْمَسْلُولِ”.
أَسْلَمَ خَالِدٌ قُبَيْلَ فَتْحِ مَكَّةَ، وَشَهِدَ مَعَ ٱلنَّبِيِّ ﷺ غَزْوَةَ مُؤْتَةَ، حَيْثُ قَاتَلَ قِتَالَ ٱلْأَبْطَالِ، وَأَمَرَهُ ٱلنَّبِيُّ ﷺ بَعْدَ مَقْتَلِ زَيْدٍ وَجَعْفَرٍ وَابْنِ رَوَاحَةَ، فَثَبَتَ وَقَاتَلَ حَتَّىٰ أَنْقَذَ ٱلْجَيْشَ وَعَادَ بِهِ سَالِمًا.
وَقَالَ فِيهِ ٱلنَّبِيُّ ﷺ: «نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ خَالِدٌ، سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ، سَلَّهُ اللَّهُ عَلَى ٱلْمُشْرِكِينَ» [رواه أحمد].
وَقَدْ فَتَحَ خَالِدٌ رَضِيَ ٱللَّهُ عَنْهُ بِلَادَ ٱلرُّومِ وَٱلْفُرْسِ، وَسَحَقَ ٱلرِّدَّةَ فِي جَزِيرَةِ ٱلْعَرَبِ، وَخَاضَ مِعَارِكَ عَظِيمَةً كَالْيَمَامَةِ وَٱلْيَرْمُوكِ وَفِرْضِيَّةِ وَٱلْعَيْنِ ٱلتَّمَرِّ.
كَانَ شُجَاعًا، مُقْبِلًا عَلَى ٱلْمَوْتِ، يُقَاتِلُ كَأَنَّهُ جَيْشٌ وَحْدَهُ، حَتَّىٰ قَالَ عَنْ نَفْسِهِ:
“لَا تَبْقَىٰ فِي جَسَدِي بَضْعَةٌ إِلَّا وَفِيهَا ضَرْبَةُ سَيْفٍ أَوْ طَعْنَةُ رُمْحٍ، وَمَعَ ذَلِكَ أَمُوتُ عَلَى ٱلْفِرَاشِ كَمَا تَمُوتُ ٱلْبَعِيرُ، فَلَا نَامَتْ أَعْيُنُ ٱلْجُبَنَاءِ!”
مَعَ كَوْنِهِ قَائِدًا عَظِيمًا، كَانَ زَاهِدًا، وَقَدْ بَكَىٰ عِنْدَ عَزْلِهِ عَنْ ٱلْقِيَادَةِ، لَيْسَ لِحُبِّ ٱلدُّنْيَا، بَلْ لِأَنَّهُ أَحَبَّ ٱلْجِهَادَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ.
وَفِي ذَلِكَ مَا قَالَهُ: “مَا حَارَبْتُ لِأَجْلِ ٱلدُّنْيَا، وَلَكِنْ لِكَيْ يَكُونَ كَلِمَةُ ٱللَّهِ هِيَ ٱلْعُلْيَا“
يَا عِبَادَ ٱللَّهِ!
تَعَلَّمُوا مِنْ خَالِدٍ ٱلْإِخْلَاصَ، وَمِنْهُ ٱلشَّجَاعَةَ، وَمِنْهُ ٱلثَّبَاتَ عَلَى ٱلْحَقِّ، وَكُونُوا جُنُودًا لِدِينِكُمْ، حَامِلِينَ لِرَايَةِ ٱلْإِسْلَامِ، دَاعِينَ إِلَى ٱللَّهِ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ.
اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ ٱلْمُقْتَدِينَ بِصَحَابَةِ نَبِيِّكَ، وَمِنَ ٱلسَّائِرِينَ عَلَىٰ نَهْجِهِمْ، وَاخْتِمْ لَنَا بِٱلْخَيْرِ، وَصَلِّ ٱللَّهُمَّ وَسَلِّمْ عَلَىٰ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ.
ٱلْخُطْبَةُ ٱلثَّانِيَةُ
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ ٱلْـحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، وَٱلصَّلَاةُ وَٱلسَّلَامُ عَلَىٰ سَيِّدِ ٱلْمُرْسَلِينَ، وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ.
أُوصِيكُمْ أَيُّهَا ٱلْمُسْلِمُونَ وَإِيَّايَ بِتَقْوَى ٱللَّهِ، فَإِنَّهَا خَيْرُ زَادٍ لِلْمَعَادِ، وَٱعْلَمُوا أَنَّ ٱللَّهَ قَدْ أَمَرَكُمْ بِأَمْرٍ بَدَأَ فِيهِ بِنَفْسِهِ، وَثَنَّىٰ بِمَلَائِكَتِهِ، وَثَلَّثَ بِكُمْ أَيُّهَا ٱلْمُؤْمِنُونَ، فَقَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ عَلِيمٍ:
﴿إِنَّ ٱللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ [الأحزاب: 56]
اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلَىٰ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ، وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ بِإِحْسَانٍ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلدِّينِ.
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَاتِ، وَٱلْمُسْلِمِينَ وَٱلْمُسْلِمَاتِ، ٱلْأَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَٱلْأَمْوَاتِ.
اللَّهُمَّ نَصِّرْ ٱلْإِسْلَامَ وَٱلْمُسْلِمِينَ، وَأَذِلَّ ٱلشِّرْكَ وَٱلْمُشْرِكِينَ، وَدَمِّرْ أَعْدَاءَ ٱلدِّينِ، وَاحْفَظْ بِلَادَ ٱلْمُسْلِمِينَ.
ٱللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ ٱلْمُقْتَدِينَ بِصَحَابَةِ نَبِيِّكَ، وَرُزْقَنَا ٱلثَّبَاتَ عَلَى ٱلطَّاعَةِ، وَٱلْإِخْلَاصَ فِي ٱلْعِبَادَةِ، وَٱلْعَمَلَ لِصَالِحِ ٱلْآخِرَةِ.
إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ بِٱلْعَدْلِ وَٱلْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي ٱلْقُرْبَىٰ، وَيَنْهَىٰ عَنِ ٱلْفَحْشَاءِ وَٱلْمُنكَرِ وَٱلْبَغْيِ، يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90].
فَاذْكُرُوا ٱللَّهَ ٱلْعَظِيمَ يَذْكُرْكُمْ، وَٱشْكُرُوهُ عَلَىٰ نِعَمِهِ يَزِدْكُمْ، وَلَذِكْرُ ٱللَّهِ أَكْبَرُ، وَٱللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ.
ترجمہ: پہلا خطبہ: حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنے مومن بندوں کی مدد فرمائی، اپنے مجاہد لشکروں کو عزت بخشی، اسلام کو روشنی اور کھلی فتح بنا کر پیش فرمایا، اور اپنے دین کے لیے ایسے مردانِ حق کو منتخب فرمایا جنہوں نے اللہ سے کیے گئے عہد کو سچ کر دکھایا۔ ہم اسی کی حمد کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں اور اسی کی طرف توبہ کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں اور برے اعمال سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے پیغام کو پہنچایا، امانت کو ادا فرمایا، اللہ کی راہ میں حق کے ساتھ جہاد کیا، اور اپنی امت کو روشن راستے پر چھوڑا۔
اما بعد!
میں اپنے آپ کو اور آپ سب مومنین کو تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ یہی نجات کا راستہ ہے اور قیامت کے دن کا زادِ راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو” (الاحزاب: 70)
معزز مسلمان بھائیو! ہم آج ایک ایسے شیرِ اسلام کی سیرت کے ساتھ کھڑے ہیں، جو توحید کے گھڑ سواروں میں سے ایک تھا، جلیل القدر صحابی: حضرت خالد بن ولید بن مغیرہ رضی اللہ عنہ، جنہیں “اللہ کی کھینچی ہوئی تلوار” (سیف اللہ المسلول) کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے کچھ عرصہ قبل اسلام قبول کیا۔ آپ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ موتہ میں شرکت کی، جہاں آپ نے عظیم بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جب زید، جعفر اور ابن رواحہ رضی اللہ عنہم شہید ہو گئے، تو نبی ﷺ نے حضرت خالد کو لشکر کا امیر بنایا، جنہوں نے بڑی ثابت قدمی سے قیادت کی اور پورے لشکر کو بحفاظت واپس لے آئے۔
نبی ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا: “اللہ کے بندوں میں بہترین بندہ خالد ہے، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے، جسے اللہ نے مشرکین کے خلاف نکالا ہے۔” (احمد)
حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے روم و ایران کی سرزمینیں فتح کیں، جزیرۂ عرب میں ارتداد کو کچلا، اور یمامہ، یرموک، فراض اور عین التمر جیسی عظیم جنگوں میں قیادت فرمائی۔
وہ ایسے بہادر تھے کہ دشمن کے دلوں میں ان کا رعب چھایا ہوتا تھا، وہ اکیلے پورے لشکر کا کام کرتے تھے۔ آپ خود فرماتے ہیں:
“میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں بچا جس میں تلوار کا زخم، نیزے کی چوٹ یا تیر کا نشان نہ ہو۔ پھر بھی میں بستر پر اس طرح مر رہا ہوں جیسے اونٹ مرتا ہے، پس بزدلوں کی آنکھیں نہ سوئیں!”
باوجود اس کے کہ آپ عظیم سپہ سالار تھے، دنیا سے بے رغبت اور خالصتاً اللہ کے لیے جہاد کرنے والے تھے۔ جب آپ کو قیادت سے معزول کیا گیا تو آپ رو پڑے، دنیا کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے کہ آپ اللہ کی راہ میں جہاد سے محبت کرتے تھے۔
آپ نے فرمایا: “میں نے دنیا کے لیے جنگ نہیں لڑی، بلکہ اس لیے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔”
اے اللہ کے بندو!
حضرت خالد سے اخلاص سیکھو، بہادری سیکھو، حق پر ثابت قدمی سیکھو، اور اپنے دین کے سپاہی بنو۔ اسلام کا جھنڈا تھامے رہو، اور بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے رہو۔
اے اللہ! ہمیں اپنے نبی کے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والا بنا، ان کے طریقے پر چلنے والوں میں شامل فرما، اور ہمارے خاتمے کو خیر پر فرما۔ اور اے اللہ! درود و سلام ہو ہمارے نبی محمد ﷺ پر، اور ان کے آل و اصحاب پر۔
تقریری نکات:
﴿مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا۟ مَا عَـٰهَدُوا۟ ٱللَّهَ عَلَيْهِ…﴾(الأحزاب: 23۔
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تَنصُرُوا۟ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾(محمد: 7۔
﴿فَلَا تَهِنُوا۟ وَتَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱلسَّلْمِ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ وَٱللَّهُ مَعَكُمْ…﴾(محمد: 35۔
- ابتدائی تمہید
اسلام کے لیے مجاہدین کی قربانیوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین کے لیے چنے گئے عظیم رجال
ان میں سب سے نمایاں: سیف اللہ خالد بن ولیدؓ
- نسب اور بچپن
نام: خالد بن ولید بن مغیرہ قبیلہ: قریش کا مشہور خاندان بنو مخزوم
بچپن ہی سے جنگی تربیت، شجاعت، نیزہ بازی اور گھڑسواری کا شوق
- قبولِ اسلام کا واقعہ
ابتدا میں کفار مکہ کے ساتھ غزوہ احد میں مسلمانوں کو شکست دینے کا حربہ اپنایا
بعد میں دل کی دنیا بدل گئی، بھائی ولید کے ذریعے اسلام کی دعوت پہنچی
صلح حدیبیہ کے بعد سن 8 ہجری میں مکہ سے مدینہ جا کر اسلام قبول کیا
- نبی ﷺ سے تعلق اور خطاب
نبی کریم ﷺ نے اسلام قبول کرنے پر فرمایا:“خالد! اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے تمہیں اسلام کی ہدایت دی، تم نے جیسا گزر بسر کی، اس کا کفارہ اسلام ہے“۔ نبی کریم ﷺ نے “سیف اللہ” یعنی اللہ کی تلوار کا لقب عطا فرمایا
- غزوۂ مؤتہ (پہلا جہاد)
زید بن حارثہ، جعفر طیار اور عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد فوج کی قیادت
محض 3,000 کے لشکر کو بچا کر واپس لائے۔ شجاعت اور حکمت عملی سے دشمن کو حیران کر دیا
- جنگی فتوحات اور کمالات
غزوہ حنین، فتح مکہ، تبوک میں شرکت۔ یمن کی فتوحات
خلافتِ ابوبکر صدیقؓ میں ارتداد کی جنگیں، خاص طور پر مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگِ یمامہ
رومیوں کے خلاف عظیم فتوحات۔ جنگ یرموک، جنگ عین التمر، جنگ دومة الجندل
خلافتِ عمر بن خطابؓ میں قیادت کی معزولی، مگر دل میں کوئی شکوہ نہ کیا
- زہد، اخلاص اور تقویٰ
دنیا سے بے رغبتی، فتوحات کے باوجود سادہ زندگی
اپنی وفات پر فرمایا: “میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس میں تلوار یا نیزے کا زخم نہ ہو، لیکن میں بستر پر مر رہا ہوں، افسوس! بزدلوں کی آنکھیں نہ سوئیں!”
- وفات
مقامِ وفات: حمص، شام۔ تاریخِ وفات: 21 ہجری۔ خواہش: “میری تلوار میرے ساتھ دفن کرنا”