Sermon Details
عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ
ABOUT SERMON:
فضائل عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ
عبد الله بن أم مكتوم رضي الله عنه ومكانته في الإسلام
الخُطْبَةُ ٱلأُولَىٰ
الحمد لله نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ﷺ، أَمَّا بَعْدُ:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أُوصِيكُمْ وَإِيَّايَ نَفْسِيَ الْخَاطِئَةَ بِتَقْوَى اللَّهِ تَعَالَىٰ فَهِيَ وَصِيَّةُ اللَّهِ لِلْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، قَالَ تَعَالَىٰ:
﴿وَلَقَدْ وَصَّيْنَا ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ﴾
يَا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ، إِنَّ مِنْ عَظِيمِ نِعَمِ اللَّهِ عَلَىٰ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَنْ بَعَثَ فِيهَا رِجَالًا صَادِقِينَ، يَنْصُرُونَ دِينَهُ، وَيَحْمِلُونَ نُورَهُ، وَمِنْ هَؤُلَاءِ: عَبْدُ اللهِ بْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، الَّذِي أَكْرَمَهُ اللهُ فِي القُرْآنِ، فَقَالَ سُبْحَانَهُ:
عَبَسَ وَتَوَلّـٰى (1) اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى (2) وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّـهٝ يَزَّكّــٰى (3) اَوْ يَذَّكَّرُ فَـتَنْفَعَهُ الـذِّكْرٰى (4) اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى (5) فَاَنْتَ لَـهٝ تَصَدّ ٰى (6) وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّـٰى (7) وَاَمَّا مَنْ جَآءَكَ يَسْعٰى (8) وَهُوَ يَخْشٰى (9) فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَـهّـٰى (10)
فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَاتُ فِي حَقِّهِ، لِيَظَلَّ ذِكْرُهُ خَالِدًا فِي الْقُرْآنِ، وَلِيَكُونَ دَرْسًا فِي التَّقْدِيرِ وَاحْتِرَامِ الْمُؤْمِنِينَ.
كَانَ أَعْمَى، وَلَكِنْ بَصِيرَتُهُ كَانَتْ نَيِّرَةً، وَإِيمَانُهُ قَوِيًّا، وَحُبُّهُ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ صَادِقًا.
كَانَ مِنْ مُؤَذِّنِي النَّبِيِّ ﷺ، وَكَانَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي غَيْبَةِ الرَّسُولِ ﷺ، وَقَدْ جَعَلَهُ النَّبِيُّ ﷺ خَلِيفَةً عَلَىٰ الْمَدِينَةِ فِي أَكْثَرِ مِنْ غَزْوَةٍ، وَمِنْهَا غَزْوَةُ بَدْرٍ.
الخُطْبَةُ ٱلثَّانِيَةُ
الحمد لله…نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، وَنُثْنِي عَلَيْهِ الْخَيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُهُ ﷺ.
يَا عِبَادَ اللَّهِ، إِنَّ فَضْلَ عَبْدِ اللهِ بْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بَيِّنٌ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَحَادِيثِ، فَقَدْ كَانَ يُرِيدُ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللهِ، مَعَ أَنَّهُ كَانَ ضَرِيرًا، وَقَدْ نَزَلَ فِيهِ:
لَّا يَسْتَوِى ٱلْقَـٰعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُو۟لِى ٱلضَّرَرِ وَٱلْمُجَـٰهِدُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَـٰهِدِينَ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى ٱلْقَـٰعِدِينَ دَرَجَةًۭ ۚ وَكُلًّۭا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلْمُجَـٰهِدِينَ عَلَى ٱلْقَـٰعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًۭا ٩٥
فَكَانَ مَعَ الْمُجَاهِدِينَ فِي قَادِسِيَّةَ، وَقَدْ شَهِدَ الْمَعْرَكَةَ تَحْتَ لِوَاءِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَسَقَطَ شَهِيدًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
وَكَانَ مِنْ حِرْصِهِ عَلَىٰ طَلَبِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ كَانَ يَسْأَلُ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ الْأُمُورِ، وَيَحْرِصُ عَلَىٰ حُضُورِ الْمَجَالِسِ، فَلَا يَمْنَعُهُ عَمَاهُ، وَلَا مَشَقَّةُ الطَّرِيقِ، حَتَّىٰ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُجِلُّهُ وَيُقَدِّمُهُ، وَقَدْ جَعَلَهُ خَلِيفَةً عَلَى الْمَدِينَةِ فِي غَزْوَةِ بَنِي قُرَيْظَةَ وَغَيْرِهَا، فَكَانَ مِثَالًا لِلصَّادِقِ فِي حُبِّ الدِّينِ، وَالْحَرِيصِ عَلَىٰ نُصْرَةِ الْإِسْلَامِ، وَالتَّفَانِي فِي خِدْمَةِ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ.
إِنَّهُ دَرْسٌ لَنَا كَيْفَ يَكُونُ الْإِيمَانُ وَالصِّدْقُ وَالثَّبَاتُ عَلَىٰ الْحَقِّ.
اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ أُولِي الْبَصَائِرِ، وَمِنَ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ، وَصَلِّ اللهمَّ وَسَلِّمْ عَلَىٰ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ، وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ.
پہلا خطبہ (اردو ترجمہ)
عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا مقام اور اسلام میں ان کی فضیلت
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، ہم اسی کی حمد کرتے ہیں، اسی سے مدد چاہتے ہیں، اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے دے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
اما بعد:
اے لوگو! میں اپنے آپ کو اور تم سب کو تقویٰ الٰہی کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ یہی اللہ کی وہ نصیحت ہے جو اس نے اولین و آخرین کو کی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلَقَدْ وَصَّيْنَا ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ﴾
(ترجمہ: اور بے شک ہم نے تم سے پہلے کتاب دیے جانے والوں کو بھی اور تمہیں بھی یہی وصیت کی کہ اللہ سے ڈرو۔)
اے مؤمنو! اللہ تعالیٰ کی اس امت پر یہ عظیم نعمت ہے کہ اس نے اس میں سچے مرد پیدا کیے جو اس کے دین کی نصرت کرتے ہیں اور اس کے نور کو دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ ان ہی عظیم لوگوں میں سے ایک عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بھی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عزت بخشی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿عَبَسَ وَتَوَلّـٰى ﴾… ﴿وَهُوَ يَخْشٰى﴾ ﴿فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَـهّـٰى﴾
(ترجمہ: وہ تیوری چڑھاتا ہے اور منہ موڑتا ہے، کیونکہ اس کے پاس ایک اندھا آیا۔ اور تجھے کیا معلوم شاید وہ پاکیزہ ہو جائے۔ یا نصیحت حاصل کرے اور نصیحت اسے نفع دے۔ رہا وہ جو بے نیازی دکھاتا ہے تو تم اس کی طرف توجہ کرتے ہو، حالانکہ تم پر کوئی ذمہ داری نہیں کہ وہ پاکیزہ ہو جائے۔ اور رہا وہ جو تمہارے پاس دوڑتا ہوا آیا اور وہ اللہ سے ڈرتا ہے تو تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو۔)
یہ آیات ان ہی کے بارے میں نازل ہوئیں تاکہ ان کا ذکر قرآن میں ہمیشہ کے لیے باقی رہے اور مؤمنین کے احترام اور ان کی قدر و منزلت کی طرف توجہ دلائی جائے۔
وہ نابینا تھے، لیکن ان کی بصیرت روشن تھی، ایمان پختہ تھا، اور رسول اللہ ﷺ سے محبت بے مثال تھی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذنوں میں شامل تھے، اور جب نبی کریم ﷺ مدینہ سے باہر ہوتے تو وہ لوگوں کی امامت کرتے۔ آپ ﷺ نے انہیں کئی غزوات میں مدینہ منورہ کا قائم مقام بنایا، جن میں غزوہ بدر بھی شامل ہے۔
دوسرا خطبہ (اردو ترجمہ)
حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ کا ایمان، جہاد اور مقامِ شہادت
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں… ہم اسی کی حمد کرتے ہیں، اسی سے مدد چاہتے ہیں، اور ہر طرح کی بھلائی اسی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں۔
اے اللہ کے بندو! حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ کی فضیلت بہت سی احادیث میں واضح طور پر آئی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کا ارادہ رکھتے تھے، حالانکہ نابینا تھے، اور ان کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:
﴿لَا يَسْتَوِي ٱلْقَاعِدُونَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي ٱلضَّرَرِ وَٱلْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ…﴾
(ترجمہ: وہ مومن جو بیٹھے رہتے ہیں مگر جو عذر والے ہیں ان کے سوا، اور وہ جو اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں، یہ دونوں برابر نہیں۔ اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت دی ہے۔ اور اللہ نے سب سے اچھی جزا کا وعدہ فرمایا ہے، اور مجاہدین کو بیٹھنے والوں پر بہت بڑا اجر عطا فرمایا ہے۔)
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ جنگِ قادسیہ میں مجاہدین کے ساتھ شریک ہوئے، اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے جھنڈے کے نیچے لڑائی میں حاضر رہے، اور وہیں شہید ہو گئے۔ اللہ ان سے راضی ہو۔
اور وہ علم حاصل کرنے کے لیے اتنے حریص تھے کہ رسول اللہ ﷺ سے مختلف امور کے متعلق سوالات کرتے رہتے، اور علمی مجالس میں شریک ہونے کی بھرپور کوشش کرتے، نہ ان کی نابینائی انہیں روکتی، اور نہ ہی راستے کی مشقت انہیں باز رکھتی۔ یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ خود ان کی تعظیم فرمایا کرتے اور انہیں مقدم رکھتے۔ آپ ﷺ نے انہیں غزوہ بنی قریظہ اور دیگر مواقع پر مدینہ کا نگران اور خلیفہ مقرر فرمایا۔ وہ دین سے سچی محبت رکھنے والے، اسلام کی نصرت کے لیے کوشاں، اور قرآن و سنت کی خدمت میں فنا ہوجانے والے ایک مثالی شخصیت تھے۔
یہ واقعہ ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ ایمان، سچائی اور حق پر ثابت قدمی کیسی ہونی چاہیے۔
اے اللہ! ہمیں بصیرت والے بندوں میں شامل فرما، اور ان لوگوں میں سے کر دے جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہتر پہلو کو اختیار کرتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ درود و سلام نازل فرمائے ہمارے نبی محمد ﷺ پر، اور ان کی آل اور تمام صحابہ پر۔
نکات
- تعارف، نسب اور ابتدائی حالات۔
مکمل نام: عبد اللہ بن قیس بن زہیر الفہری۔ کنیت: ابن اُمِّ مکتوم (ماں کی طرف منسوب)۔ بچپن میں ہی بینائی سے محروم ہو گئے تھے۔ قریش کے معزز قبیلہ بنو فہر سے تعلق تھا۔ ماں کا نام عاتکہ بنت عبد اللہ (جنھیں “اُمِّ مکتوم” کہا جاتا تھا)
- اسلام میں ابتدائی شمولیت
حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ اوائل اسلام کے مسلمانوں میں سے تھے۔ ابتدائی سختی اور ظلم کے زمانے میں بھی دین پر ثابت قدم رہے۔ ایمان، قربانی اور ہجرت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے
- مدینہ منورہ کی طرف ہجرت
حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بعد مدینہ پہنچنے والے دوسرے مہاجر تھے۔ حضرت براءؓ بن عازب کی روایت کے مطابق: “یہ دونوں (مصعبؓ اور ابن ام مکتومؓ) لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے”
- رسول اللہ ﷺ سے تعلق اور محبت
آپ ﷺ سے گہری محبت رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک یہودی عورت (جس کے گھر میں مقیم تھے) نے حضور ﷺ کی توہین کی۔ حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ نے فوراً اسے قتل کر دیا، حالانکہ وہ عورت ان کے ساتھ حسن سلوک کرتی تھی۔ اس واقعے سے آپ کے ایمان، غیرتِ دینی اور اخلاص کا اظہار ہوتا ہے
- واقعہ عبس (سورۃ عبس کی پس منظر)
ایک دن حضور ﷺ سردارانِ قریش کو دعوتِ اسلام دے رہے تھے۔ حضرت ابن ام مکتومؓ حاضر ہوئے اور قرآن سے متعلق سوال کرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے وقتی طور پر توجہ نہ دی۔ اسی پر سورۃ عبس کی آیات نازل ہوئیں:”عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ أَن جَآءَهُ ٱلْأَعْمَىٰ”۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ ان کا خاص احترام و اکرام فرمایا۔
- اذان اور امامت کی خدمت
حضرت بلال حبشیؓ کے ساتھ آپ ﷺ کے مؤذن تھے۔ حضرت ام سلمہؓ اور حضرت میمونہؓ کے ساتھ پردے کا واقعہ:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”وہ نابینا ہے، مگر کیا تم بھی نابینا ہو؟”۔اس سے پردے کے آفاقی اصول ظاہر ہوتے ہیں۔
- نمازوں میں جانشینی
حضور ﷺ جب کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تو مدینہ کا نائب (قائم مقام) حضرت ابن ام مکتومؓ کو بناتے۔ تیرہ غزوات میں آپ کو خلیفہ بنایا گیا۔ امامت کے فرائض انجام دیتے
- علم و تدریس کی خدمات
صفہ کے طلباء میں شامل تھے۔ طلبہ کو قرآن اور دین کی تعلیم دیتے۔ امام ابونعیم کے مطابق آپ دار الغذاء (مخرمہ بن نوفل کا گھر) میں ٹھہرے۔
- شجاعت اور شہادت
باوجود نابینائی کے جہاد میں شرکت کا جذبہ۔ جنگِ قادسیہ میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے لشکر میں شامل ہوئے۔ سیاہ جھنڈا اٹھایا۔ جسم پر زرہ تھی۔ اسی جنگ میں شہادت کا بلند رتبہ حاصل کیا۔
- عبرت و پیغام
دین کے کام کے لیے جسمانی کمزوریاں رکاوٹ نہیں۔ نابینائی کے باوجود دین، دعوت، اذان، امامت، جہاد سب میں نمایاں کردار۔ خواتین کے لیے بھی پردے کا عظیم سبق۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت و مقام کا معیار بصارت نہیں، بصیرت اور تقویٰ ہے۔