Sermon Details
خُطْبَةُ عِيدِ الْأَضْحَى
ABOUT SERMON:
خُطْبَةُ عِيدِ الْأَضْحَى: رِسَالَةُ التَّقْوَى وَالشُّكْرِ وَتَسْخِيرِ الْكَوْنِ
الخطبة الأولى:
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَجَعَلَ الْأَنْعَامَ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ، وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ، وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ، وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ، وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيهَا زِينَةٌ وَرِزْقٌ.
نَحْمَدُهُ سُبْحَانَهُ عَلَى نِعْمَةِ الْهُدَى وَالْإِيمَانِ وَالصِّيَامِ وَالْقُرْبَانِ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ بِإِحْسَانٍ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ.
أُوصِيكُمْ وَنَفْسِيَ الْخَاطِئَةَ بِتَقْوَى اللَّهِ، فَإِنَّهَا وَصِيَّةُ اللَّهِ لِلْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ.قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ: ﴿ لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنْكُمْ ﴾[الحج: ٣٧]
وَقَالَ تَعَالَى:﴿ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ﴾[البقرة: ١٨٥]
أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ! إِنَّ يَوْمَ الْأَضْحَى هُوَ يَوْمُ التَّقْوَى وَالطَّاعَةِ، يَوْمُ الشُّكْرِ وَالذِّكْرِ، يَوْمٌ تُذْبَحُ فِيهِ الْأَنْفُسُ قَبْلَ الْأَنْعَامِ، وَتُقَدَّمُ النِّيَّاتُ قَبْلَ الْعَمَلِ. إِنَّ الْقُرْبَانَ لَيْسَ فِي الذَّبْحِ وَالْدَّمِ، وَلَكِنْ فِي إِخْلَاصِ النِّيَّةِ، وَإِقَامَةِ الشُّكْرِ، وَرَحْمَةِ الْفُقَرَاءِ.
قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى»[البخاري، مسلم]
وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ»[ابن ماجه]
أَيُّهَا الْمُسْلِمُونَ! تَذَكَّرُوا إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ حِينَ قَالَ: ﴿ إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ ﴾ [الصافات: 99] وَحِينَ أَسْلَمَ ابْنَهُ لِلذَّبْحِ قَالَ: ﴿ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ﴾ [الصافات: 102]
فَصَارَتْ قُصَّةُ الْقُرْبَانِ مِثَالًا لِلتَّسْلِيمِ وَالطَّاعَةِ وَالْخُضُوعِ لِأَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى.
الخطبة الثانية:
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.
أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ! إِنَّ كُلَّ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مُسَخَّرٌ لَكُمْ، فَاسْتَخْدِمُوهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَلَا تُبَذِّرُوا نِعَمَ اللَّهِ، فَإِنَّ التَّبْذِيرَ إِخْوَانُ الشَّيَاطِينِ.
قَالَ تَعَالَى: ﴿ وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ، وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ﴾ [إبراهيم: ٣٣]
فَاشْكُرُوا اللَّهَ عَلَى نِعَمِهِ، وَتَذَكَّرُوا أَنَّ الْقُرْبَانَ لَيْسَ عَادَةً وَلَا مَظْهَرًا، بَلْ هُوَ عِبَادَةٌ وَتَرْبِيَةٌ وَتَذْكِيرٌ.
وَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ. قُولُوا: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ. اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنَّا وَمِنْكُمْ، وَاغْفِرْ لَنَا، وَارْزُقْنَا قُرْبَكَ وَرِضَاكَ. اللَّهُمَّ اجْعَلْ هَذِهِ الْعِيدَ مُبَارَكَةً عَلَى الْأُمَّةِ الْإِسْلَامِيَّةِ، وَوَحِّدْ كَلِمَتَهُمْ، وَارْفَعْ رَايَتَهُمْ، وَاحْفَظْ بِلَادَنَا وَبِلَادَ الْمُسْلِمِينَ.
وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْـحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.
تقریر کے نکات
عیدالاضحیٰ کا پیغام: قربانی، شکر، اور تسخیرِ کائنات
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو ربّ العالمین ہے، وہی خالق ہے، رازق ہے، اور اسی کے لیے ہم جان دیتے ہیں۔ آج کا دن عیدالاضحیٰ کا دن ہے، خوشی کا، شکر کا، اور قربانی کے جذبے کو یاد کرنے کا دن ہے۔
عیدین کا مشترکہ پیغام
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ”(تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس بات پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی۔) [سورۃ البقرۃ: 185]
عیدالفطر شکر ہے اس نعمت پر کہ اللہ نے ہمیں قرآن کی ہدایت دی، رمضان دیا، اور تقویٰ کی تربیت دی۔
عیدالاضحیٰ شکر ہے اس بات پر کہ اللہ نے دنیا کے وسائل، جانور، دریا، زمین، سب کچھ ہمارے لیے مسخر کیا — اور ہمیں آزمایا کہ کیا ہم ان نعمتوں کو اللہ کی رضا کے مطابق استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔
قربانی کی روح — سورۃ الحج کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:”لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ” (اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون، بلکہ تمہارا تقویٰ اس تک پہنچتا ہے۔) [الحج: 37]
یہی قربانی کا اصل پیغام ہے — دل کا اخلاص، نیت کی پاکیزگی، اور اللہ کی رضا۔
قربانی کے تین بنیادی پہلو
تقویٰ: یعنی دل کی کیفیت، نیت کا اخلاص، اور یہ شعور کہ ہم یہ عمل صرف اللہ کے لیے کر رہے ہیں۔
شکر گزاری: اللہ کی نعمتوں کا اعتراف — جانور، مال، صحت، اور قربانی کی توفیق سب اللہ کا احسان ہے۔
انسانیت سے محبت: گوشت کی تقسیم ہو، یا صدقہ و خیرات — اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو یاد رکھیں، غرباء و مساکین کو خوشی پہنچائیں۔
وسائلِ کائنات کی تسخیر — قرآن کا تصور
قرآن ہمیں بار بار بتاتا ہے کہ: “وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ… وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ… وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ…”
اللہ نے چاند، سورج، رات دن، سمندر، جانور — سب کچھ ہمارے لیے مسخر کیا، تاکہ ہم ان وسائل سے اللہ کی بندگی کریں اور انسانیت کی خدمت کریں۔
قربانی کی اصل تربیت
جب ہم ایک جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں تو ہمیں یہ سکھایا جاتا ہے:
تمہیں مال پر اختیار ہے، لیکن تمہارے اختیار کا مصرف اللہ کی رضا ہونی چاہیے۔
ہر عمل سے پہلے نیت کرو: “إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ…”
دعا مانگو: “اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ” (اے اللہ! یہ تیرا ہی دیا ہوا ہے اور تیرے ہی لیے ہے۔)
ابراہیم علیہ السلام کی قربانی — سراپا اطاعت
ابراہیم علیہ السلام نے ہر مقام پر اللہ کی رضا کو ترجیح دی:
قوم کے شرک کے خلاف کھڑے ہوئے۔
بادشاہ وقت کے سامنے جلاوطنی قبول کی۔
بیوی اور نومولود بیٹے کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑا۔
جب حکم آیا کہ بیٹے کو قربان کرو — تو بغیر چون و چرا تسلیم کرلیا۔
یہی اسلام کا مطلب ہے: مکمل اطاعت۔
ہماری قربانیاں — ابراہیمی جذبے کی جھلک
آج ہم سے بھی قربانی مانگی جاتی ہے:کبھی مال کی قربانی، کبھی وقت کی، کبھی نفس کی، اور کبھی اپنی خواہشات کی/
قربانی صرف جانور ذبح کرنا نہیں، بلکہ اپنی زندگی کو اللہ کے سپرد کرنا ہے۔
مولانا روم کا واقعہ — اللہ کی شانِ قبولیت
مولانا روم فرماتے ہیں:ایک دیہاتی کے پاس کچھ نہ تھا، بیوی نے کہا بادشاہ کے دربار میں جاؤ شاید کچھ مل جائے۔ وہ اپنے کنویں سے پانی کا ایک مٹکا لے کر کئی دن سفر کرکے بادشاہ کے پاس پہنچا۔ تب تک پانی بدبودار ہو چکا تھا۔ مگر بادشاہ نے قبول کیا اور کہا: “اس کے مٹکے کو اشرفیوں سے بھر دو”۔پھر واپسی پر جب دیہاتی نے دریا دیکھا تو شرمندہ ہوا کہ میرے مٹکے کی حیثیت ہی کیا تھی۔ مولانا روم کہتے ہیں:”ہماری عبادات، روزے، نمازیں — سب ہمارے ‘مٹکے’ ہیں، ناقص اور کمزور — لیکن اللہ انہیں اپنی شانِ کرم سے قبول فرماتا ہے اور ہمیں نوازتا ہے۔”
جدید دور میں عید الاضحیٰ کا پیغام
آج جب سائنسی ترقی، وسائل کی فراوانی، اور ٹیکنالوجی کی بہتات ہے، تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے:
پانی، بجلی، خوراک — یہ سب اللہ کی امانتیں ہیں۔ان کا ضیاع گناہ ہے۔ہمیں ان کو ہنر، علم، اور نیتِ خیر کے ساتھ استعمال کرنا ہے۔عہد کریں!یہ عید ہمیں یاد دلاتی ہے کہ:
ہم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں گے
ہم وسائل کو صحیح استعمال کریں گے
ہم انسانوں کو فائدہ پہنچائیں گے
ہم ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے کریں گے
اللہ تعالیٰ ہمیں اس عید کی روح کو سمجھنے، اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے، اور قربانی کو صرف رسم نہ بنانے کی توفیق دے۔ آمین۔
عید مبارک! تقبل اللہ منا ومنکم صالح الأعمال