Sermon Details
الخِلافَةُ الرَّاشِدَةُ وَالسِّيرَةُ الْمُبَارَكَةُ لِلْخَلِيفَةِ الثَّالِثِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
الخُطْبَةُ الأُولَى
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ فَقَدَّرَ لَهُمُ الْأَجَلَ، وَاصْطَفَىٰ مِنْهُمْ خِيَرَةً لِهَذَا الدِّينِ، وَجَعَلَ لَهُمْ ذِكْرًا فِي الْآخِرِينَ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا.
أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ.
أَمَّا بَعْدُ…فَأُوصِيكُمْ أَيُّهَا الْمُسْلِمُونَ وَإِيَّايَ بِتَقْوَى اللَّهِ، فَإِنَّهَا خَيْرُ الزَّادِ، وَسَبِيلُ النَّجَاةِ، وَقَالَ تَعَالَىٰ:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا﴾ [الأحزاب: 70]
يَا عِبَادَ اللَّهِ!….إِنَّنَا الْيَوْمَ نَتَذَكَّرُ سِيرَةَ أَحَدِ عُظَمَاءِ الْإِسْلَامِ، وَثَالِثِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، ذِي النُّورَيْنِ، الْمُبَشَّرِ بِالْجَنَّةِ، وَالْمُسَاهِمِ فِي نَصْرِ هَذَا الدِّينِ، سَيِّدِنَا عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، هُوَ مِنَ السَّابِقِينَ الْأَوَّلِينَ، وَمِنَ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ، وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَىٰ رَسُولِ اللهِ ﷺ.
قَالَ ﷺ: «أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللهِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ» [رواه الترمذي].
زَوَّجَهُ النَّبِيُّ ﷺ ابْنَتَهُ رُقَيَّةَ، ثُمَّ بَعْدَ وَفَاتِهَا، زَوَّجَهُ أُمَّ كُلْثُومٍ، فَقِيلَ لَهُ: “ذُو النُّورَيْنِ”.
كَانَ تَاجِرًا أَمِينًا، كَرِيمَ النَّفْسِ، أَنْفَقَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَالَهُ، وَاشْتَرَىٰ بِئْرَ رُومَةَ، وَوَقَفَهَا لِلْمُسْلِمِينَ، فَنَزَلَ فِي ذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى:﴿إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ﴾ [التغابن: 17]
وَقَوْلُهُ تَعَالَى:﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً﴾ [البقرة: 274].
فَهُوَ الَّذِي جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:
“مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ” [رواه البخاري].
وَفِي يَوْمِ التَّبُوكِ لَمَّا تَصَدَّقَ، قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:
“مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا فَعَلَ بَعْدَ الْيَوْمِ” [رواه الترمذي].
وَكَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ أَكْثَرِ النَّاسِ حَيَاءً، حَتَّىٰ قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ ﷺ:
“أَلَا أَسْتَحْيِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ؟” [رواه مسلم].
وَقَالَ أَيْضًا: “أَشَدُّ أُمَّتِي حَيَاءً عُثْمَانُ” [رواه أحمد].
كَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَلِيمًا، كَرِيمًا، صَابِرًا، عَالِمًا، قَارِئًا لِلْقُرْآنِ، وَجَامِعًا لِمُصْحَفِ الْأُمَّةِ، فَجَزَاهُ اللَّهُ عَنِ الْإِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِينَ خَيْرَ الْجَزَاءِ.
نَقُولُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: “لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ فِي الْجَنَّةِ، وَرَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ عُثْمَانُ” [رواه ابن ماجه].
أَقُولُ قَوْلِي هَذَا، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلَكُمْ.
الخُطْبَةُ الثَّانِيَة
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ الْكَرِيمِ الرَّحِيمِ، الرَّفِيقِ بِعِبَادِهِ، نَحْمَدُهُ عَلَىٰ نِعَمِهِ، وَنَشْكُرُهُ عَلَىٰ فَضْلِهِ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُهُ.
أَيُّهَا الْمُسْلِمُونَ!…. إِنَّ سَيِّدَنَا عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ خَلِيفَةً رَاشِدًا، عَادِلًا، زَاهِدًا، حَيِيًّا، جَمَعَ النَّاسَ عَلَىٰ الْمُصْحَفِ، وَنَشَرَ الْقُرْآنَ، وَفَتَحَ اللهُ عَلَىٰ يَدَيْهِ بِلَادًا كَثِيرَةً.فِي زَمَنِهِ فُتِحَتْ أَرْضُ أَرْمِينِيَا، وَأَذْرَبَيْجَان، وَخُرَاسَان، وَكِرْمَان، وَأَفْرِيقِيَا.
إِنَّ فِي سِيرَةِ عُثْمَانَ دُرُوسًا فِي الْحَيَاءِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّخَاءِ، وَفِي مَحَبَّتِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، كَانَ صَادِقًا فِي صُحْبَتِهِ، وَأَمِينًا فِي خِلَافَتِهِ، وَصَابِرًا عِنْدَ مِحْنَتِهِ، كَانَ يُطْعِمُ الْمَسَاكِينَ، وَيَصِلُ الرَّحِمَ، وَيَبْكِي مِنْ خَشْيَةِ اللهِ، حَتَّىٰ يُبَلِّلَ لِحْيَتَهُ.وَقُتِلَ شَهِيدًا فِي بَيْتِهِ وَهُوَ صَائِمٌ، يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَدَمُهُ الزَّكِيُّ عَلَىٰ الْمُصْحَفِ يَسِيلُ، فَكَانَ شَهِيدَ الْقُرْآنِ.
اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الْمُقْتَدِينَ بِعُثْمَانَ فِي حَيَائِهِ، وَكَرَمِهِ، وَصَبْرِهِ، وَزُهْدِهِ، وَارْزُقْنَا شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ.
اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الَّذِينَ يَقْتَدُونَ بِالخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، وَيَتَّبِعُونَ آثَارَهُمْ، وَيَسِيرُونَ عَلَىٰ نَهْجِهِم.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِهِ وَصَحْبِهِ، وَارْضَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ: أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَلِيٍّ، وَعَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ.
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ، وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ، يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾ [النحل: 90]
فَاذْكُرُوا اللَّهَ يَذْكُرْكُمْ، وَاشْكُرُوهُ عَلَىٰ نِعَمِهِ يَزِدْكُمْ، وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ۔
خطبہ جمعہ: خلافتِ راشدہ اور حضرت عثمان بن عفانؓ کی مبارک سیرت
خطبہ اول
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے مخلوق کو پیدا فرمایا، ان کے لیے وقت مقرر فرمایا، اور ان میں سے کچھ کو اس دین کے لیے منتخب فرمایا۔ اور ان کے لیے بعد میں آنے والوں میں ذکر باقی رکھا۔ ہم اسی کی حمد کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی سے معافی چاہتے ہیں۔ ہم اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر، ان کی آل اور تمام صحابہ پر رحمت نازل فرمائے۔
اما بعد…اے مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ یہی سب سے بہترین زاد راہ ہے اور نجات کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچی بات کہا کرو۔‘‘ (الاحزاب: 70)
اللہ کے بندو!
آج ہم اسلام کی عظیم شخصیات میں سے ایک شخصیت، خلیفۂ ثالث، دو نوروں والے، جنت کی بشارت پانے والے، دین اسلام کی مدد کرنے والے، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی سیرت کو یاد کرتے ہیں۔
آپؓ سابقین اولین میں سے تھے، عشرہ مبشرہ میں شامل تھے، اور رسول اللہ ﷺ کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
“میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے ابو بکر ہیں، اور اللہ کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں، اور سب سے زیادہ حیا دار عثمان ہیں۔” (ترمذی)
نبی کریم ﷺ نے اپنی صاحبزادی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمانؓ سے فرمایا، ان کی وفات کے بعد ام کلثومؓ سے نکاح فرمایا، اسی لیے آپ کو “ذوالنورین” یعنی دو نوروں والا کہا جاتا ہے۔
آپ ایک امانت دار تاجر تھے، دل کے سخی، اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے والے۔ آپ نے بئرِ رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دی، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اگر تم اللہ کو قرض حسن دو گے تو وہ اسے تمہارے لیے بڑھا دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔‘‘ (التغابن: 17)
اور فرمایا:’’جو لوگ اپنا مال رات اور دن، پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (البقرہ: 274)
آپؓ نے “غزوۂ تبوک” کے موقع پر “جیش العسرة” کو تیار کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“عثمان کو آج کے بعد جو بھی کرے گا، اسے کوئی نقصان نہ دے گا۔” (ترمذی)
اور فرمایا:”جس نے جیش العسرة تیار کیا، اس کے لیے جنت ہے۔” (بخاری)
آپؓ بہت زیادہ حیادار تھے، یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں، جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟” (مسلم)
اور فرمایا:”میری امت میں سب سے زیادہ حیادار عثمان ہے۔” (احمد)
آپ حلیم، کریم، صابر، عالم، قرآن کے قاری اور امت کے لیے قرآن کو جمع کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی جانب سے بہترین جزا دے۔
ہم وہی کہتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق ہو گا، اور میرے رفیق جنت میں عثمان ہوں گے۔” (ابن ماجہ)
میں یہی کہتا ہوں، اور اللہ سے اپنے لیے اور تم سب کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔
خطبہ دوم
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو کریم اور رحم کرنے والا ہے، جو اپنے بندوں کے ساتھ نرمی فرماتا ہے۔ ہم اس کی نعمتوں پر اس کی حمد کرتے ہیں، اور اس کے فضل پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں، اور گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔
اے مسلمانو!بیشک سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ایک راشد خلیفہ تھے، عادل، زاہد، حیادار۔ انہوں نے امت کو قرآن پر جمع کیا، قرآن کو پھیلایا، اور ان کے ہاتھوں اللہ نے بہت سی زمینوں کو فتح کیا۔ ان کے دور میں ارمینیا، آذربائیجان، خراسان، کرمان اور افریقہ کی زمینیں فتح ہوئیں۔
عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت میں ہمارے لیے حیاء، ایمان، سخاوت اور رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اسباق ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے سچے ساتھی تھے، خلافت میں امانت دار تھے، آزمائش کے وقت صابر تھے۔ وہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے، صلہ رحمی کرتے، اور اللہ کے خوف سے روتے، یہاں تک کہ ان کی داڑھی بھیگ جاتی۔
آپ روزہ کی حالت میں اپنے گھر میں شہید کیے گئے، اس حال میں کہ قرآن پڑھ رہے تھے، اور ان کا پاکیزہ خون قرآن پر بہہ رہا تھا۔ یوں آپ ’’شہید القرآن‘‘ کہلائے۔
اے اللہ! ہمیں عثمان کی حیاء، سخاوت، صبر اور زہد میں ان جیسا بنا دے، اور ہمیں اپنے راستے میں شہادت عطا فرما۔
اے اللہ! ہمیں راشد خلفاء کی پیروی کرنے والوں میں شامل فرما، ان کے نقش قدم پر چلنے والا بنا، اور ان کے راستے پر گامزن فرما۔
اے اللہ! محمد ﷺ، ان کی آل، ان کے صحابہ پر درود نازل فرما، اور راشد خلفاء: ابوبکر، عمر، عثمان، علی، اور باقی تمام صحابہ و تابعین سے راضی ہو جا۔
’’یقیناً اللہ عدل، احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘ (النحل: 90)
پس اللہ کو یاد کرو، وہ تمہیں یاد رکھے گا، اور اس کا شکر ادا کرو، وہ تمہیں مزید دے گا۔ بے شک اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔