Sermon Details
سِيرَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَخِلَافَتُهُ وَمَآثِرُهُ
الخُطْبَةُ الأُولَى
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَصَرَ عَبْدَهُ، وَأَعَزَّ دِينَهُ، وَجَعَلَ فِي الْأَرْضِ خُلَفَاءَ يَقُومُونَ بِالْحَقِّ، وَيَهْدُونَ بِهِ، أَحْمَدُهُ وَأَشْكُرُهُ، وَأَسْتَعِينُهُ وَأَسْتَغْفِرُهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا.
أَمَّا بَعْدُ: فَأُوصِيكُمْ أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ وَنَفْسِيَ الْخَاطِئَةَ بِتَقْوَى اللَّهِ، فَإِنَّ التَّقْوَى زَادٌ لِلرِّحْلَةِ، وَنُورٌ فِي الظُّلْمَةِ، وَسَبَبٌ لِلنَّجَاةِ.
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ، وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ﴿آلِ عِمْرَانَ: ١٠٢﴾.
أَيُّهَا الْمُسْلِمُونَ! نَحْنُ الْيَوْمَ فِي ذِكْرِ عَظِيمٍ، وَفِي سِيرَةِ رَجُلٍ هُوَ خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا، أَلَا وَهُوَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
إِنَّهُ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ بَعْدَ النَّبِيِّ فِي الْحَضَرِ، وَالْمُؤْمِنُ فِي الْفِتْنَةِ، وَالثَّابِتُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ، وَالزَّاهِدُ عَنِ الدُّنْيَا، وَالْمُقْبِلُ عَلَى الْآخِرَةِ.
هُوَ الَّذِي قَالَ فِيهِ رَبُّنَا جَلَّ وَعَلَا: ﴿إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا﴾ [التوبة: ٤٠]، فَشَهِدَ لَهُ بِالصُّحْبَةِ فِي أَخْطَرِ اللَّحَظَاتِ، وَفِي أَحْلَكِ السَّاعَاتِ.
وَقَدْ أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَىٰ فَضْلِهِ، وَقُدْوَتِهِ، وَسَبْقِهِ، وَإِيمَانِهِ، وَتَصْدِيقِهِ، وَصُحْبَتِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي السِّرِّ وَالْعَلَنِ.
إِنَّهُ أَوَّلُ خَلِيفَةٍ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، اجْتَمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَىٰ بَيْعَتِهِ، وَقَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ خِلَافَتَهُ، فَقَامَ بِالْأَمْرِ، وَقَاتَلَ الْمُرْتَدِّينَ، وَحَفِظَ الدِّينَ، وَنَشَرَ التَّوْحِيدَ، وَجَمَعَ الْقُرْآنَ.
وَقَدْ كَانَ يَقُولُ: “وَاللَّهِ، لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ”، فَثَبَتَ عَلَى الْحَقِّ، وَقَدَّمَ الدِّينَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ. كَانَ فِي زَمَنِهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ، وَفُتِحَتِ الْبِلَادُ، وَأُرْسِلَتِ الْجُيُوشُ، وَنُشِرَ الْعِلْمُ، وَتَرَسَّخَ الْإِيمَانُ، وَكَانَ مِثَالًا فِي التَّقْوَىٰ وَالْوَرَعِ وَالزُّهْدِ وَالْعَدْلِ.
وَفِي آخِرِ أَيَّامِهِ، قَالَ لِلنَّاسِ: “إِنِّي اسْتَعْمَلْتُ عَلَيْكُمْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا”، فَكَانَتْ بَصِيرَتُهُ فِي اخْتِيَارِ الْقَائِدِ دَلِيلًا عَلَىٰ حُسْنِ نَظَرِهِ.
نَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَرْزُقَنَا حُبَّهُ، وَاتِّبَاعَ أَثَرِهِ، وَالْعَمَلَ بِسِيرَتِهِ، فَفِيهَا الْخَيْرُ وَالْفَلَاحُ.
أَقُولُ قَوْلِي هَذَا، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلَكُمْ، فَاسْتَغْفِرُوهُ، إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.
الخُطْبَةُ الثَّانِيَة
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ عَلَىٰ إِحْسَانِهِ، وَالشُّكْرُ لَهُ عَلَىٰ تَوْفِيقِهِ وَامْتِنَانِهِ، وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وَأَصْحَابِهِ، وَمَنِ اتَّبَعَ هُدَاهُ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ. أَيُّهَا النَّاسُ! تَأَمَّلُوا فِي خِلافَةِ أَبِي بَكْرٍ، كَيْفَ كَانَ أَمِينًا عَلَى دِينِ اللَّهِ، وَقَوِيًّا فِي الْحَقِّ، وَرَحِيمًا بِالرَّعِيَّةِ، وَخَاشِعًا فِي الْعِبَادَةِ. ذَكَرَ الذَّهَبِيُّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: “كَانَ رَقِيقَ الْقَلْبِ، كَثِيرَ الْبُكَاءِ، يَقُومُ بِاللَّيْلِ، وَيَصُومُ بِالنَّهَارِ، وَلَا يَخْشَىٰ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ”. وَكَانَ يَقُولُ: “لَوْ أَنَّ قَدَمِي الْيُمْنَىٰ فِي الْجَنَّةِ، وَالْأُخْرَىٰ خَارِجَهَا، مَا أَمِنْتُ مَكْرَ اللَّهِ”. اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الَّذِينَ يَقْتَدُونَ بِأَبِي بَكْرٍ فِي صِدْقِهِ وَتَوَاضُعِهِ وَتُقَاهُ، وَاخْتِمْ لَنَا بِالْخَيْرِ.
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ، الْأَحْيَاءِ مِنْهُمْ وَالْأَمْوَاتِ، إِنَّكَ سَمِيعٌ قَرِيبٌ مُجِيبُ الدَّعَوَاتِ. عِبَادَ اللَّهِ! ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ، وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ، وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ، يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾ [النحل: ٩٠].
فَاذْكُرُوا اللَّهَ يَذْكُرْكُمْ، وَاشْكُرُوهُ عَلَىٰ نِعَمِهِ يَزِدْكُمْ، وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ۔
موضوع: حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سیرت، خلافت اور کارنامے
خطبہ اول:
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے کو مدد دی، اپنے دین کو سربلند فرمایا، اور زمین میں ایسے خلفاء مقرر فرمائے جو حق کے ساتھ قیادت کرتے اور لوگوں کو اس کے ذریعے ہدایت دیتے ہیں۔میں اسی اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں، اس کا شکر ادا کرتا ہوں، اسی سے مدد مانگتا ہوں اور اسی سے بخشش طلب کرتا ہوں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ تعالیٰ ان پر، ان کی آل اور صحابہ کرام پر بکثرت درود و سلام نازل فرمائے۔
بعد ازاں:
اے ایمان والو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں۔ تقویٰ سفرِ آخرت کے لیے زادِ راہ ہے، اندھیروں میں روشنی ہے، اور نجات کا ذریعہ ہے۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ایسا ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آنی چاہیے۔
اے مسلمانو! آج ہم ایک عظیم شخصیت کا ذکر کر رہے ہیں، ایک ایسے مردِ مومن کا تذکرہ ہے جو اس امت میں نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے افضل ہے، اور وہ ہیں: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ۔ وہ سفر کے ساتھی، حیاتِ نبوی کے بعد خلیفہ، فتنوں میں صاحبِ ایمان، سختیوں میں ثابت قدم، دنیا سے بے رغبت، اور آخرت کے طالب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: “جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے: غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔” یہ گواہی ہے کہ وہ سخت ترین لمحے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔
پوری امت نے ان کے فضل، ان کی رہنمائی، ان کے سبقت لے جانے، ان کے ایمان، ان کے تصدیق کرنے، اور ان کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رفاقت پر اجماع کیا ہے، خواہ وہ خفیہ ہو یا علانیہ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پہلے خلیفہ تھے۔ پوری امت نے ان کی بیعت پر اتفاق کیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی خلافت کو قبول فرمایا۔انہوں نے خلافت کے امور سنبھالے، مرتدین سے جنگ کی، دین کی حفاظت کی، توحید کو پھیلایا، اور قرآن کو جمع کروایا۔ انہوں نے فرمایا تھا: “اللہ کی قسم! میں ضرور اس سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا۔” انہوں نے حق پر ڈٹ کر قیام کیا اور دین کو ہر چیز پر مقدم رکھا۔ ان کے دور میں خیر کثیر تھا، ملک فتح ہوئے، لشکر روانہ کیے گئے، علم کو پھیلایا گیا، ایمان کو مضبوط کیا گیا، اور وہ تقویٰ، زہد، عدل اور پرہیزگاری میں مثال بن گئے۔
اپنے آخری ایام میں انہوں نے فرمایا: “میں نے تم پر عمر بن خطاب کو مقرر کیا ہے، لہٰذا اس کی سنو اور اطاعت کرو۔”
ان کا یہ فیصلہ بہترین قائد کے انتخاب میں ان کی دوراندیشی اور بصیرت کی دلیل تھا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ان سے محبت عطا فرمائے، ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے، اور ان کی سیرت پر عمل کرنے کی ہمت دے، کیونکہ اسی میں خیر اور فلاح ہے۔ میں یہ بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت کا طلب گار ہوں، پس اسی سے معافی مانگیں، وہی بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
خطبہ ثانی:
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اس کی نعمتوں پر، اور اس کی توفیق اور احسان پر۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اے لوگو! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر غور کریں کہ وہ اللہ کے دین کے امین تھے، حق پر مضبوط تھے، رعایا کے ساتھ رحمدل، اور عبادت میں انتہائی عاجز و متواضع تھے۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
“وہ نرم دل تھے، کثرت سے روتے تھے، راتوں کو قیام کرتے اور دن میں روزے رکھتے تھے، اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔” انہوں نے فرمایا تھا: “اگر میری ایک ٹانگ جنت میں ہو اور دوسری ابھی باہر ہو، تب بھی میں اللہ کے مکر سے بے خوف نہ ہوں۔” اے اللہ! ہمیں حضرت ابوبکر کے سچائی، تواضع اور تقویٰ میں ان کی پیروی کی توفیق عطا فرما، اور ہمارے خاتمے کو خیر کے ساتھ مکمل فرما۔
اے اللہ! ایمان والے مردوں اور عورتوں، اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما، جو زندہ ہیں ان کی بھی اور جو فوت ہو چکے ہیں ان کی بھی۔ بے شک تو سننے والا، قریب اور دعا قبول کرنے والا ہے۔