Sermon Details
: سِيرَةُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَفَضْلُهُ وَخِلَافَتُهُ
الخُطْبَةُ الاولیٰ
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ. وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَىٰ آلِهِ وَأَصْحَابِهِ وَمَنْ تَبِعَهُمْ بِإِحْسَانٍ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ.
أَمَّا بَعْدُ: فَإِنِّي أُوصِيكُمْ أَيُّهَا الْمُسْلِمُونَ وَنَفْسِيَ الْخَاطِئَةَ بِتَقْوَى اللَّهِ، فَإِنَّ التَّقْوَىٰ خَيْرُ زَادٍ، وَسَبَبُ النَّجَاةِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. قَالَ تَعَالَىٰ: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا﴾ [الأحزاب: 70]، وَقَالَ: ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ﴾ [الحجرات: 13].
يَا عِبَادَ اللَّهِ!
إِنَّنَا الْيَوْمَ نَقِفُ مَعَ سِيرَةِ رَجُلٍ جَلِيلٍ مِنْ أَجَلِّ رِجَالِ الْإِسْلَامِ، وَهُوَ الْخَلِيفَةُ الثَّانِي، وَالْإِمَامُ الْعَادِلُ، الْمُفَرِّقِ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ الْفَارُوقُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
إِنَّهُ كَانَ شَدِيدًا عَلَى الْكُفَّارِ، رَحِيمًا بِالْمُؤْمِنِينَ، كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ شَدِيدًا، فَجَعَلَهُ اللَّهُ فِي الْإِسْلَامِ نَاصِرًا وَقَائِدًا. أَسْلَمَ وَفِيهِ قُوَّةٌ وَصَرَامَةٌ، فَكَانَ إِسْلَامُهُ فَتْحًا، وَهِجْرَتُهُ ظُهُورًا، وَخِلَافَتُهُ عِزًّا، وَمَوْتُهُ مَصِيبَةٌ.
قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ ﷺ: « اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ: بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ» » [رواه الترمذي]. وَقَدْ أَسْلَمَ فَكَانَ إِسْلَامُهُ نَصْرًا، وَخُرُوجُهُ إِلَى الْكَعْبَةِ تَحَدِّيًا، وَعَدْلُهُ شُهْرَةً، وَزُهْدُهُ قُدْوَةً.
قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ» [رواه أحمد]. وَقَالَ ﷺ: «إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ» [رواه الترمذي]. وَكَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوِيًّا فِي الْحَقِّ، بَاكِيًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، وَعَدْلُهُ مَضْرِبُ الْأَمْثَالِ، وَحَيَاتُهُ مَزْجٌ بَيْنَ الشِّدَّةِ فِي الدِّينِ وَالرَّحْمَةِ لِلْمُؤْمِنِينَ.
وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُونَ عَلَيَّ، وَعَلَيْهِمْ قُمْصَانٌ، مِنْهَا مَا يَبْلُغُ الثَّدْيَ، وَمِنْهَا مَا دُونَ ذَلِكَ، وَرَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَيْهِ قَمِيصٌ يَجُرُّهُ»، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «الدِّينُ» [رواه البخاري].
وَكَانَ فِي عَهْدِهِ الْفُتُوحَاتُ الْعَظِيمَةُ: الشَّامُ، وَمِصْرُ، وَالْعِرَاقُ، وَالْفُرْسُ. وَثَبَّتَ الدَّوْلَةَ، وَنَظَّمَ الْإِدَارَةَ، وَقَسَّمَ الْأَعْطِيَاتِ، وَأَسَّسَ التَّقْوِيمَ الْهِجْرِيَّ، وَنَصَبَ الْقُضَاةَ، وَرَاعَى حُقُوقَ النَّاسِ. وَكَانَ زَاهِدًا فِي الدُّنْيَا، يَلْبَسُ الْخَشِنَ، وَيَأْكُلُ مِمَّا يَأْكُلُهُ الْفُقَرَاءُ، وَيَبْكِي مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، وَيَقُولُ: “لَوْ أَنَّ بَعِيرًا عَثَرَ فِي الْعِرَاقِ، لَسُئِلَ عَنْهُ عُمَرُ، لِمَ لَمْ يُسَوِّ لَهُ الطَّرِيقَ؟”
نَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَرْزُقَنَا حُبَّهُ، وَالِاقْتِدَاءَ بِهِ، وَالتَّأَسِّيَ بِعَدْلِهِ وَزُهْدِهِ. أَقُولُ قَوْلِي هَذَا، وَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلَكُمْ.
الخُطْبَةُ الثَّانِيَة
اَلْـحَمْدُ لِلَّهِ الْمَلِكِ الدَّيَّانِ، وَالْحَكِيمِ الْخَبِيرِ، نَحْمَدُهُ عَلَىٰ مَا أَنْعَمَ، وَنَشْكُرُهُ عَلَىٰ مَا أَوْلَىٰ، وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَتُوبُ إِلَيْهِ. وَنَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ، وَمَنْ تَبِعَهُمْ بِإِحْسَانٍ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ.
أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ!
إِنَّ فِي سِيرَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دُرُوسًا وَعِبَرًا، فَاقْتَدُوا بِعَدْلِهِ وَتُقَاهُ وَزُهْدِهِ. وَتَفَكَّرُوا فِي خَوْفِهِ مِنَ اللَّهِ، وَقَدْ كَانَ يَقُولُ: “لَوْ أَنَّ قَدَمِي الْيُمْنَىٰ فِي الْجَنَّةِ، وَالْأُخْرَىٰ خَارِجَهَا، مَا أَمِنْتُ مَكْرَ اللَّهِ”.
وَقُتِلَ شَهِيدًا فِي الْمِحْرَابِ وَهُوَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَجَزَاهُ اللَّهُ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ خَيْرَ الْجَزَاءِ.
اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ أَهْلِ التَّقْوَى، وَارْزُقْنَا قِيَامَ اللَّيْلِ، وَالْإِخْلَاصَ فِي الْعَمَلِ، وَالْإِقْتِدَاءَ بِخُلَفَائِكَ الرَّاشِدِينَ.
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَعَلَىٰ آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
وَارْضَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَلِيٍّ، وَسَائِرِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ.
﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ، وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ، وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ﴾ [النحل: 90].
فَاذْكُرُوا اللَّهَ يَذْكُرْكُمْ، وَاشْكُرُوهُ عَلَىٰ نِعَمِهِ يَزِدْكُمْ، وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی حمد کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں، اور اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر، ان کے اہل بیت پر، ان کے تمام صحابہ پر اور قیامت تک ان کے نیک پیروکاروں پر درود وسلام بھیجے۔
اے مسلمانو! میں تمہیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ تقویٰ سب سے بہتر توشہ ہے، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچی بات کہو۔” اور فرمایا: “بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔”
اے اللہ کے بندو! آج ہم اسلام کی ایک جلیل القدر شخصیت، اسلام کے دوسرے خلیفہ، عدل کے امام، اور حق و باطل میں فرق کرنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت پر گفتگو کر رہے ہیں۔
وہ کفار پر سخت اور مومنوں پر مہربان تھے۔ جاہلیت میں ان کی طبیعت سخت تھی، لیکن اللہ نے اسلام میں ان کے ذریعے دین کو طاقت بخشی اور قیادت عطا فرمائی۔ انہوں نے قوت اور صلابت کے ساتھ اسلام قبول کیا، ان کا اسلام لانا فتح کا باعث بنا، ان کی ہجرت ایک اعلان بن گئی، ان کی خلافت عزت کا سبب بنی، اور ان کا انتقال امت کے لیے ایک صدمہ تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں دعا کی: “اے اللہ! ابو جہل یا عمر بن خطاب میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہے، اس کے ذریعے اسلام کو قوت عطا فرما۔” پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، تو ان کا اسلام دین کے لیے مددگار بن گیا۔ ان کا بیت اللہ کی طرف کھلے عام جانا دشمنانِ اسلام کے لیے ایک چیلنج تھا۔ ان کا عدل مشہور تھا، ان کا زہد قابلِ نمونہ تھا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔” اور فرمایا: “اللہ نے حق کو عمر کی زبان اور دل پر رکھ دیا ہے۔”
وہ حق کے معاملے میں سخت تھے، اللہ کے خوف سے روتے تھے، ان کا عدل ضرب المثل تھا، اور ان کی زندگی دین میں سختی اور مومنین کے لیے نرمی کا حسین امتزاج تھی۔
ایک بار نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “میں نے خواب میں لوگوں کو دیکھا، ان پر قمیصیں تھیں، کچھ کی چھاتی تک تھیں اور کچھ اس سے کم۔ میں نے عمر بن خطاب کو دیکھا کہ وہ قمیص گھسیٹ رہے تھے۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ فرمایا: دین۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں عظیم فتوحات ہوئیں: شام، مصر، عراق، اور فارس فتح ہوئے۔ انہوں نے اسلامی ریاست کو مضبوط کیا، نظام حکومت کو منظم کیا، وظیفے تقسیم کیے، ہجری تقویم کی بنیاد رکھی، قاضی مقرر کیے، اور عوام کے حقوق کا خیال رکھا۔
وہ دنیا سے بے رغبت تھے، کھردرا لباس پہنتے، وہی کھاتے جو فقراء کھاتے، اللہ کے خوف سے روتے اور فرمایا کرتے: “اگر عراق میں ایک اونٹ بھی ٹھوکر کھائے تو مجھے ڈر ہے کہ عمر سے اس کے بارے میں سوال ہو گا کہ تم نے اس کے لیے راستہ کیوں نہ ہموار کیا؟”
ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت عطا فرمائے، ان کی اقتداء نصیب فرمائے، اور ہمیں ان کے عدل و زہد کی پیروی کرنے والا بنائے۔
میں اسی پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو بادشاہ اور جزا کا مالک ہے، جو حکمت والا اور باخبر ہے۔ ہم اسی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنی نعمتوں سے نوازا، اور اسی سے معافی مانگتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں۔
ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر، ان کے آل و اصحاب پر، اور قیامت تک ان کے نیک پیروکاروں پر درود وسلام نازل فرمائے۔ اے ایمان والو! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت میں ہمارے لیے عظیم سبق اور عبرتیں ہیں، لہٰذا ان کے عدل، تقویٰ اور زہد کی پیروی کرو۔
ان کے اللہ کے خوف پر غور کرو، وہ فرمایا کرتے تھے: “اگر میرا ایک پاؤں جنت میں ہو اور دوسرا باہر، تب بھی میں اللہ کی چال سے بے خوف نہ ہوتا۔” اور وہ شہید ہوئے، اس حال میں کہ محراب میں کھڑے نماز پڑھا رہے تھے۔ اللہ ان کی امت کے لیے خدمات کا بہترین بدلہ دے۔
اے اللہ! ہمیں اپنے متقی بندوں میں شامل فرما، ہمیں راتوں کے قیام کی توفیق عطا فرما، ہمارے اعمال میں اخلاص عطا فرما، اور ہمیں اپنے خلفائے راشدین کی پیروی کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ! محمد پر، ان کی آل پر، اسی طرح درود بھیج جیسا کہ تو نے ابراہیم پر بھیجا۔ تو بہت تعریفوں والا، بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! ابوبکر، عمر، عثمان، علی اور تمام صحابہ و تابعین سے راضی ہو جا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: “بے شک اللہ انصاف، احسان، اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، برائی، اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق حاصل کرو۔”
پس اللہ کو یاد کرو، وہ تمہیں یاد کرے گا۔ اس کا شکر ادا کرو، وہ تمہیں مزید دے گا۔ اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے، اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔